اپنے خاتمے کے قریب سال 2024 اعلیٰ عدلیہ پر ا??گز??کٹو کے تسلط کے طور پر یاد رکھا جائے گا، حال ہی ??یں سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے اس بات پرخطرے کی گھنٹی بجا دی ہے جسے وہ عدلیہ کی تاریخ کے کمزور ترین مراحل ??یں سے ایک کے طور پر بیان کرتے ہیں، اس ??یں ا??گز??کٹو کی جانب سے حد سے زیادہ بڑھ جانے والے خطرات کی تنبیہ کی گئی ہے۔
مارچ 2009 ??یں ججوں کی بحالی کے بعد سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ??ھی اعلیٰ عدلیہ کا سامنا کرنے سے گریز کر رہی تھی، تاہم عدلیہ سویلین اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے پارلیمنٹ اور سویلین حکومتوں کو کمزور کرنے کا آلہ بن گئی۔
پاناما فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کے ججوں کے درمیان تصادم شروع ہوا، سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے بعد سپریم کورٹ دو حصوں ??یں تقسیم ہو گئی۔
پی ٹی آئی نے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور الیکشن کمیشن پر 8 فروری کے انتخابات ??یں دھاندلی کا الزام عائد کیا ، وہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے مقدمات ??یں عدالتی کارروائی ??یں چھیر چھاڑ کے الزام پر مستعفی ہوئے۔
سماعتوں کے دوران پی ٹی آئی کیخلاف ان کا تعصب واضح تھا۔ انھوں نے آئینی ??رم??م کی منظوری ??یں موجودہ حکومت کی سہولتکاری ??یں کلیدی کردار ادا کیا۔
یہ اطلاعات ??ھی ہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ کو اگلا چیف جسٹس بننے سے روکنے کے لیے سپریم کورٹ کے اندر کوششیں کی گئیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خود اعتراف کیا کہ سابق چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی عدم موجودگی ??یں 26 ویں آئینی ??رم??م ممکن نہیں تھی۔
سپریم کورٹ کے سینئر ججز عدلیہ کے کام ??یں ا??گز??کٹو کے بااثر کردار پر بے بس ہیں۔
کمیٹی کے فیصلے کے باوجود چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے 4 نومبر کو 26 ویں آئینی ??رم??م کے خلاف آئینی درخواستیں سماعت کیلیے مقرر نہیں کیں۔
وکلاء چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے اس طرز عمل پر ??ھی سوال اٹھا رہے ہیں جو صرف سول ججز سے خطاب اور جیل اصلاحات کے لیے ملک بھر کا دورہ کر رہے ہیں۔
دوسری جانب جسٹس امین الدین خان کی سربراہی ??یں آئینی بینچ عوام ??یں کوئی تاثر پیدا نہیں کر سکا۔
وکلاء کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کے اندر سہولتکاری کے بغیر عدلیہ پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔
تاریخ شاید ہی ان ججوں کو بھولے گی جنھوں نے ذاتی مفادات کے ساتھ ساتھ اپنی انا کی تسکین کے لیے اپنے ہی ادارے کو کمزور کیا۔